دہشت گردی کیا ہے؟
دہشت گردی سے مراد اپنے نظریات اور تصورات کو طاقت اور
جارحیت سے دوسروں پر نافذ کرتا ہے۔ جہالت بے شعوری اور تنگ نظری کو جنم دیتی
ہے کہ ذہنی و فکری ارتقا کا عمل رک
جاتا ہے اور انسان محدود تصورات کی وجہ سے گھڑے کا مینڈک بن کر رہ جاتا ہے۔ تنگ
نظر رویوں کی بھرمار ہوتی ہے اور تحمل برداشت اختلاف رائے اور تخلیق و تحقیق کے
رویے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔
دہشت گردوں کے مقاصد
دہشت گردوں کا بنیادی مقصد ملک میں افرا تفری پیدا کرنا
ہوتا ہے اور قانون کی عملداری کو تہہ بالا کرنا ہے یوں حکومت کی دیکھ بھال اور
تعمیری سرگرمیوں میں دلچسپی نہیں لے سکتی۔دہشت گردوں کا ٹارگٹ سکولز ، دفاتر،
مساجد، امام بارگاہ ، اور گرجا گھر وغیرہ ہوتے ہیں۔
فرقہ پرستی اور شدت پسندانہ رویے
پاکستان دہشگت گردی سے بری طرح شکار ہے۔ یہاں مسلمان مسلمان
کا گلا کاٹ رہا ہے، ہمارے اسلاف کا طرز عمل تو یہ تھا کہ وہ غیر مسلموں کو دائرہ
اسلام میں لاتے تھے جبکہ آ جکا مسلمان ، مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے پر
تلا ہوا ہے۔ اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر معصوم جانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے
بعض دہشت گرد تنظیموں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کٹھ پتلی
حکومتیں انکی پشت پناہی کرتی ہیں۔
سفارشات
1۔کفر کے فتووں پر قانونی پابندی لگائی جائے
2۔ دینی مدارس اور
تنظیموں کی بیرونی فنڈنگ بند کی جائے
3۔پچھلے بارہ سال کے دوران ہونے والے دہشت گردی میں ملوث
لوگوں کے نام ،شناخت اور علاقائی تعلق کو منظر عام پر لایا جائے۔
4۔دہشتگردوں کی حمائت میں بیان دینے والوں اور انکو رہائش
دینے والوں کو عمر قید کی سزا دی جائے
5۔پیس ایجوکیشن سنٹر قائم کیے جائیں۔
6۔یکساں قومی نصاب بنایا جائے
دہشت گردی کے متعلق علمائےدیوبند کا فتویٰ
اسلام تمام انسانیت کے لیے رحمت کا مذہب ہےیہ ہر قسم کے جبر
، تشدد اور دہشتگردی کی سختی سے مذمت کرتا
ہے ، دارالعلوم دیو بند میں کنونشن کی قرار داد۔ علمائے دیوبند نے دہشتگردی
کو اسلام می تعلیمات کے منافی قرارد یا ہے اور کہاکہ قرآن پاک میں کسی بھی مذہب سے
تعلق رکھنے والے بے گناہ افراد کو ہلاک کرنے سے منع کیا گیا ہے تاہم دہشتگردی کی
آڑ میں مسلمانوں کو حراساں نہ کیا جائے۔ یہ بات علمائے دیوبند نے بھارتی ریاست
اترپردیش کے ضلع سہالپور میں واقع دارلعلوم دیو بند میں "دہشتگردی" کے
موضوع پر ایک اہم کنونشن سے خطاب کرتے ہوئےکہی۔ کنونشن میں پورے بھارت سے اسلام کے
تمام مکاتب فکر کے 6ہزار مدارس کے تقریباََ20 ہزار علمائے کرام اور دانشور شریک
ہوئے، اس موقع پر ایک قرارداد منظور کی گئ جس میں کہا گیا "اسلام تمام
انسانیت کے لیے رحمت کا مذہب ہے، اسلام ہر قسم کے جبر تشدد اور دہشتگردی کی سختی
سے مذمت کرتا ہے یہ ظلم جبر دھوکہ دہی فتنہ فساد اور قتل و غارت کو بدترین گناہوں
اور جرائم میں شریک کرتا ہے، اسلام بے گناہوں کو قتل کرنے سے منع کرتاہے ،اور
مسلمان کو دہشت گردی کے نام پر ہراساں اور تشدد کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔
ایک مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے۔
اپنے گھناؤنے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے معصوم شہریوں
اوربے گناہ انسانو ں کو بے دریغ قتل کرنے والے کیسے دین امن و سلامتی کے علم
برداربنتے ہیں؟ وہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے ہزارون مسلمانوں کی قتل و
غارت گری میں مصروف ہیں جبکہ حضور نبی کریمﷺنے تو ایک مومن کے قتل کو بھی پوری
دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اس حوالے سے چند احادیث کا ترجمہ :
"حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری
دنیا کا ناپید ہو جانا ہلکا ہے"